بررسی پایان نامه های انجام شده درباره ترجمه و ... |
آهن و سنـــگ از برونش مظلمی وز درون نوری و شمـــــع عالمی
درج در خوفی هزاران ایـــــمنی در سواد چشم چندیـــــن روشنی
ای مبــــدّل کرده خاکی را به زر خاک دیـــــــگر را نموده بوالبشر
ای که خاک شــوره را تو نان کنی ای که نان مـــــرده را تو جان کنی
ای که جان خیــــره را رهبر کنی ای که بیره را تو پیغمبــــــر کنی
ای که خاک تیـره را تو جان دهی عقل و حسّ و روزی و ایمان دهی
شکر از نی میـــوه از چوب آوری از منی مرده بت خــــــوب آوری
گل ز گل صفوت ز دل پیــدا کنی پیه را بخشی ضیــــــاء و روشنی
ایک ایسی بات هے جو صرف شاعرانه حیثیت کے سوا کچھ نهیں هے اور اجتماع نقیضین کو محال سمجھنے والوں کی مراد مطلق وجود اور عدم هیں نه که نسبی تدریجی اور سیال۔(۱)
اس سے بھی حیران کن بات یه هے که یه سائنسدانحضرات ان شاعرانه باتوں کے علاوه“نفی نفی” سے “اثبات”کا نتیجه لیتے هیں۔
(۱) یه اعتراض بھی مثلث “تز، اینٹی تز،سنتز”کے بارے میں هیگل کی تعبیر اور تفسیر کی بنیاد پر وارد هے جسے اجتماع نقیضین کی بنیاد پر فرض کیا گیا هے۔
پهلے بیان هوا که هیگل اور اس کے پیروکار جس چیز کو “ تناقض”اور “اجتماع نقیضین” کانام دیتے هیں اس سے جسے منطق اور فلسفه اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے هیں اور اسے ممتنع سمجھتے هیں هزاروں میل کے فاصله پر هے ۔ اور یه که “صیرورتها” اور “شدنها” میں وجود اور عدم آپس میں مرکب هوئے هیں اور اجتماع نقیضین کوتشکیل دیا هے کوئی سنجیده بات نهیں هے بلکه مزاق سے زیاده شباهت رکھتی هے جو ایک غیر معمولی جِدّت پسندی اور روشن خیالی سے وجود میں آئی هےبهتر هے ان باتوں میں سنجیدگی نه لیں اور انهیں ایک قسم کی مجاز اور تشبیه تلقی کریں۔ اگر اس طرح کی تعبیرات کو ملاک قرار دیں تو ضروری هے هم اپنے عرفاء کو هیگل سے پهلے جدلیاتی مان لیں کیونکه عرفاء هیں جنهوں نے مکرراً کها هے که “هستی ، نیستی کے اندر هے”، “بقاء فناء میں هے”۔ ایک عارف کهتا هے:
عاقل زهست گوید و عارف ز نیستی من در میان آب و گل هست و نیستم
عاقل کهتا هے “هے” اور عارف کهتا هے“نهیں هے” میں “هستی اور نیستی” کے دلدل میں هوں
عبرت نائینی[۹۵] کهتا هے :
چون نور که از مهر جدا هست وجدانیست عالم همه آیات خدا هست و خدا نیست
در آینه بینیـــــــــد همه صورت خود را آن صورت آئینه شما هست و شما نیست
هر جا نگری جلوه گه شاهـــد غیبی است او را نتوان گفت کجا هست و کجا نیست
این نیستی هست نما را به حقیــــــــقت در دیده ما و تو بقا هست و بقا نیـــست
درویش که در کشور فقــــر است شهنشاه پیش نظر خلق گدا هست و گدا نیـــست
بی مهری و لطف از قبل یار بـــه “عبرت” از چیست ندانم که روا هست و روا نیست
حقیقت یه هے که خود هیگل بھی اس نکتے کی طرف متوجه تھا که جسے وه جمع نقیضین کهتا هے اس چیز کا غیر هے جسے منطق اور فلسفه ممتنع سمجھتے هیں۔ هیگل کے پیروکار خود هیگل سےزیادہ “هیگلسٹ” نکلے هیں۔ پل فولکیه جدلیات کے کتابچہ میں “هیگل کی جدلیات اور تناقض” کے عنوان کے تحت کهتا هے:
“هیگل کےعقیدے میں جدلیاتی روش جس کے مطابق فکرو اندیشه (مثال مطلق) طبیعت اور ذهن میں واقعی صورت قبول کرتی هے ، تناقض کی بنیاد پر مبنی هے۔ لیکن ضروری هے متوجه هوں که هیگل کی جدلیات اصل عدم اجتماع ضدین کو کلی طور پر رد نهیں کرتی هے۔ اس لحاظ سے قدیم جدلیات کے ساتھ جو اصل عدم اجتماع ضدین کو اپنی اصلی بنیاد جانتی هے، کوئی فرق نهیں رکھتی۔ … هیگل اگرچه ظاهراً اس کے برخلاف اظهار کرتا هے لیکن باطن میں باقی تمام لوگوں کی طرح اصل عدم اجتماع ضدین کو قبول کرتا هے۔ …”[۹۶]
پل فولکیه کتاب مابعد الطبیعه کے صفحه نمبر ۳۶۹ پر کهتا هے که:
“…۔ خود هیگل بھی اس چیز کے برعکس جو کبھی کبھار اس کی طرف نسبت دی جاتی هے کہ هیگل اجتماع متناقضین کے ممتنع هونے کا قائل تھا۔ اجتماع اور ارتفاع نقیضین کے باب میں اس کی یه بات ظاهری تناقض سے مربوط هے نه واقعی۔ هیگل اس بات کا قائل تھا که جو چیز انسانی فکر میں واقعاحقیقی هے همیشه حقیقی ره جاتی هے اور وه چیز بعد کی تمام تالیفات کے ضمن میں قرار پاتی هے اور فکری پیشرفت سے مراد تنها علم کے ان حصوں کو دور کرنا هے جن کے غلط هونے کے بارے میں علم هو۔ [۹۷]
عمومی حرکت کے مفهوم کی وضاحت
جیسا که هم جانتے هیں که مادی علوم میں تحقیق کرنے والے سائنسدان وں نے ایک زمانے میں ماده(جسم کے غیر قابل تجزیه ابتدائی اجزاء) کو موضوعِ بحث قرار دے کر اس کی مختلف خصوصیات سے بحث کرتے تھے اور باوجود اس کے که بحث کی راه ادراک اور تجربه پر منحصر نهیں تھی پھر بھی اس بحث کو ادراک اور تجربے کے ذریعے آگے بڑھاتے تھے ۔
اسی روش کی بنا پر ان سائنسدانوں کے مطابق“قضیه” کا مفهوم (حمل- یه وه هے)جیساکه هم نے مقاله نمبر ۱ میں اس بات کا تذکر دیا هے ، اس مفهوم کا غیر هے جو قضیے سے عمومی مفاهمت کے دوران همارے هاتھ آتا هےمثلا کها جائے که “انسان کھانا کھاتا هے” یا “پانی حرارت کی وجه سے بخار میں تبدیل هوتا هے” تو ان سائنسدانوں کے مطابق ان کا معنی یه هے که ماده کے تجزیه ناپذیر اجزاء کا مجموعه جسے لوگ “انسان” کا نام دیتے هیں کھانا کھانے کی خصوصیت رکھتا هے۔ اسی طرح مادی اجزاء کا مجموعه جسے پانی کها جاتا هے بخار میں تبدیل هو تا هے۔
جیساکه واضح هے اس صورت میں تأثیر اور تأثیر پذیری کی خاصیت مادے کی هے اور خصوصیات کا موضوع بھی وهی ماده هی هے جو مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص اثر اور خصوصیات کا حامل هوتا هے۔ حالانکه لوگوں کےپاس یه خصوصیات انسان اور پانی کی هیں چاهے وه مادے کے بارے میں علم رکھتے هوں یا نه رکھتے هوں۔(۱)
(۱) قدیم اور جدید (Ideology) کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے متمائز کرنے والے بنیادی مسائل میں سے ایک “صور نوعیه” هے۔ یه مسئله بهت هی اهمیت کا حامل هے ۔ مطلب کی وضاحت کے لئے ضروری هے مقدمهً کچھ باتیں ذکر هوں۔
دوسرے لفظوں میں هم نوعی صورتوں “انسان”، “گھوڑا”،”درخت” اور “پانی” اور اس طرح کے دوسری چیزوں کو موضوع قرار دیتے هیں اور ایک طبیعی سائنسدان مادے کو موضوع قرار دیتے هیں۔
جیساکه هم جانتے هیں قدماء کائنات کے موجودات کی ایک خاص طریقے سے تقسیم بندی کرتے هیں ۔ ان کے مطابق موجودات (ممکن الوجود موجودات) جوہر اور عرض میں تقسیم هوتے هیں ۔ تمام جواهر ایک مقوله کی حیثیت رکھتے هیں یعنی ایک ذاتی اور ماهوی مابه الاشتراک میں جمع هوتے هیں ۔ لیکن اعراض مجموعاً ۹ (نو) مقولات کے تحت جمع هیں اور هر مقوله دوسرے سے متبائن هے۔
جواهر جو سب کے سب ایک مقولے کے تحت داخل هیں اور ایک مشترک ذات میں جمع هوتے هیں بھی مختلف انواع اور اقسام رکھتے هیں یعنی اس کے باوجود که ایک ذاتی اور عمومی امر میں مشترک هیں کچھ دوسرے ذاتی امور میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے هیں۔ مثلا جوهر ،جسم اور غیر جسم میں تقسیم هوتا هے اور جسم، نامی اور غیر نامی میں اور نامی، حیوان اور غیر حیوان میں اور حیوان، انسان اور غیر انسان میں تقسیم هوتا هے۔ قدماء کے نزدیک یه تقسیمات اشیاء کی ذات اور ماهیت سے مربوط هے یعنی جس طرح جوهر کی ماهیت اعراض میں سے هر ایک کی ماهیت کا غیر هے اسی طرح جسمانی جوهر کی ماهیت عقلانی جوهر کی ماهیت سے متفاوت هے۔ البته جسمانی اور عقلانی جوهر ماهیت کے ایک جز ءمیں ایک دوسرے کے ساتھ وحدت رکھتے هیں ۔ اسی طرح جسم نامی کی ماهیت ، جسم غیر نامی کی ماهیت سے متفاوت هے اور اسی طرح…
قدماء کے نزدیک مختلف الذات والماهیت جوهری انواع خارج میں وجود رکھتے هیں۔ منطق میں معروف بحث “کلیات خمس”(جنس ، نوع، فصل، عرض خاص اور عرض عام) اس فلسفی طرز تفکر کی بنیاد پر هے۔ اور اسی طرح رسم تام اور رسم ناقص کے مقابلے میں حد تام اور حد ناقص کا مسئله تعریفات کی بحث میں اسی بنیاد پر هے۔
لیکن اگر کوئی جوهر اور عرض کا منکر هوجائے یا جواهر کے ایک دوسرے سے اختلاف کو ذاتی اور ماهوی نه سمجھیں تو اس صورت میں خواسته یا ناخواسته جنس ، فصل اور نوع جو ان دونوں سے مرکب هوتا هے کی بحث کے لئے کوئی جگه باقی نهیں رهتی جس طرح حدِتام اور ناقص کے لئے کوئی جگه باقی نهیں رهتی ۔
پس حرکت عمومی(کائنات کا وجود مساوی هے توانائی کے اور جو بھی هے صرف حرکت هے) کا نظریه یا فرضیه پیش هونے کے بعد سائنسی مسائل کے مفاهیم دوسرے لفظوں میں “قضیه” کے مفهوم (منطقی اصطلاح میں حمل) میں جدید تحول پیدا هوا جس سے طرز تفکر بالکل بدل گیا۔
اسی طرح فلسفه کی معروف بحث “ماده اور صورت ”کے لئے بھی کوئی جگه نهیں رهتی اس تفاوت کے ساتھ که “ماده اور صورت” کی بحث ماهوی اختلافات کے نظریے کی بنیاد پر هے جبکه کلیات حدود اور تعریفا ت کی بحث اس مسئلے کی فرع اور نتیجه هے۔
اب هم کهیں گے ممکن هے کوئی اشیاء کے ماهوی اختلافات کا منکر هو اورکهے که کس دلیل کی بنیاد پر خارج میں موجود مختلف اشیاء ذات اور ماهیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی هیں ؟ کیا چیز مانع بنتی هے که یه تمام ایک ذات اور ایک ماهیت هوں اور ان کے اختلافات سطحی اور عارضی هوں؟ صرف نام کا اختلاف که ایک جماد ، دوسرا نبات اور تیسرا حیوان هے دلیل نهیں بن سکتا که یه آپس میں ذات اور ماهیت کے لحاظ سے مختلف هوں۔ تمام اشیاء مادی اجزاء کے ایک سلسلے سے تشکیل پاتے هیں اور ان کی ماهیت کو اسی مادے کے اجزاء جو هر ایک میں موجود هیں تشکیل دیتے هیں ۔ ان کے درمیان پایا جانے والا اختلاف جسمانی ساخت اور بناوٹ کی کیفیت میں هے ۔ بدیهی هے که ساخت کی کیفیت میں اختلاف سبب نهیں بنتا هے که ایک هی چیز سے تشکیل پانے والی اشیاء کے اختلافات ماهوی اور ذاتی هوں۔ جس طرح شهر کی هر عمارت ایک خاص شکل اور ترکیب رکھتی هے اور ایک معین هدف کے لئے مفید هے اور هر ایک خاص نام رکھتی هیں۔ ایک مدرسه هے، دوسری مارکیٹ، تیسری گیراج ، چوتھی مسجد اور پانچویں حمّام … حالانکه ان میں سے هر ایک اینٹ ، پتھر ، لوها، سیمنٹ، چونااور مٹی وغیره کا مجموعه هے ۔ مختلف مشینیریاں مانند موٹرکار، هوائی جهاز، فولاد کا کارخانه اور اسلحے کی فیکٹری وغیره جو سب کے سب مختلف بناوٹوں اور ترکیبوں کے باوجود مختلف دھات کا ایک مجموعه هے ۔ ان عمارتوں اور مشینوں کے اختلافات صرف اور صرف بناوٹ، ترتیب ، شکل اور هدف میں هے جو ان سے مقصود هے ۔ کبھی بھی کسی نے یه دعوا نهیں کیا هے که یه تمام عمارتیں اور مشینیں ماهیت ، ذات اور نوعیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف هیں۔
مثلا پهلی والی مثال میں “انسان کھانا کھاتا هے” کا مفهوم یه هے که هم خواص کے مجموعے یا واضح الفاظ میں حرکات کے مجموعے کو جو واقع میں یکساں هیں وضعی اور قرادادی بنیاد پر “انسان” نام رکھتے هیں اور اس کے بعد اس مذکوره مجموعے کی بعض خواص اور حرکات کو ایک جوهری ذات قرار دیتے هوئے “کھانے” (بعض دیگر خواص اور حرکات) کو اس کا خاصه شمار کرتے هیں ۔
وه موجودات جنهیں هم مختلف ماهیات خیال کرتے هیں اور جن کے اختلافات کو ذاتی اور نوعی گمان کرتے هیں اور انهیں مختلف انواع اور اجناس کی صورت میں تقسیم بندی کرتے هیں، بھی مادی ذرات کا ایک مجموعه هے جو آپس میں مل کر ایک خاص شکل اور نظم کو تشکیل دیتے هیں جسے هم جماد، نبات، حیوان اور انسان کا نام دیتے هیں۔ اصطلاحا اگر ان میں سے هر ایک کے بارے میں “ما هو؟” کے ذریعے سوال کیا جائے تو جواب یه هوگا که :“فلان نظم اور فلان مکانیزم کے ساتھ ذرات کا ایک مجموعه هے”۔
یه نظریه طویل تاریخ رکھتا هے۔ ڈیماکریٹس اور اس کے استاد لوسیبوس جو اجسام کو کچھ ذرات سے مرکب سمجھتے تھے اور اسی طرح ایپی کیورس [۹۸] اس جهت سے ڈیماکریٹس کی پیروی کرتے تھے موجودات کے بارے میں ان کا نظریه بسیط عناصر سے لے کر مرکبات تک هو بهو یهی هے۔ ڈیماکریٹس کهتا هے:
“صحت اور حقیقت رکھنے والی چیز صرف ذرات اور خلاء هیں”[۹۹]
بو علی سینا نےمنطق شفا میں مختلف جگهوں پر مختلف مناسبتوں سے ڈیماکریٹس کے نظریے کو نقل کیا هے۔ عصر حاضر کے علماء نے بھی اس کے بارے میں ان کے اقوال کو زیاده صراحت کے ساتھ نقل کیا هے ۔
فرم در حال بارگذاری ...
[پنجشنبه 1400-09-25] [ 02:00:00 ق.ظ ]
|