کلیه مطالب این سایت فاقد اعتبار و از رده خارج است. تعطیل کامل

مرداد 1404
شن یک دو سه چهار پنج جم
 << <   > >>
        1 2 3
4 5 6 7 8 9 10
11 12 13 14 15 16 17
18 19 20 21 22 23 24
25 26 27 28 29 30 31



آخرین مطالب


جستجو

 



گفتار اوّل : فضانوردان و اشیای فضایی ۱۱۲
مبحث اوّل: چارچوب مفهومی از فضانورد و گزینش آنان ۱۱۳
الف) طبقه‌بندی ونحوهگزینش فضانوردان ۱۱۳
ب) مقررات حاکم بر‌گزینش فضانوردان ۱۱۲
مبحث دوم: آثارحقوقی شناسایی فضانوردان به‌عنوان «نمایندگان بشریّت» ۱۱۳
مبحث سوم: وجه تمایز فضانوردان از گردشگران فضایی ۱۱۶
مبحث چهارم: چالش‌های موافقتنامه نجات ۱۱۸
گفتاردوم: نظام مسئولیت بین‌المللی دولت‌ها در قبال فعالیت‌های فضایی ۱۲۳
مبحث اوّل: نظام مسئولیت بین‌المللی درفضا ۱۲۴
مبحث دوم: انواع مسئولیت درفضا ۱۲۵
الف) مسئولیت برای «اعمال ممنوعه» و مسئولیت «اعمال منع نشده» ۱۲۶

(( اینجا فقط تکه ای از متن درج شده است. برای خرید متن کامل فایل پایان نامه با فرمت ورد می توانید به سایت feko.ir مراجعه نمایید و کلمه کلیدی مورد نظرتان را جستجو نمایید. ))

ب) مسئولیت ناشی از عدم «سعی و کوشش کافی» ۱۲۶
ج) مسئولیت ناشی از «فعالیت‌های فوق العاده خطرناک» ۱۲۷
مبحث سوم: حل اختلافات درکنواسیون مسئولیت ۱۲۸
الف) طرح دعوی و مهلت زمان آن ۱۲۸
ب) ایجاد کمیسیون دعاوی ۱۳۰
مبحث چهارم: چالش‌های کنوانسیون مسئولیت ۱۳۱
الف) چالش تعاریف و مفاهیم ۱۳۱
ب) نقص‌های کنوانسیون مسئولیت ۱۴۵
گفتارسوم: ثبت اشیای فضایی و مشکلات حقوقی آن ۱۴۸
مبحث اوّل: انواع ثبت ۱۴۸
الف) ثبت ملی ۱۴۹
ب) ثبت بین‌المللی ۱۵۰
مبحث دوم: جمع آوری، ثبت و انتشار اطلاعات مربوط به اشیای فضایی ۱۵۱
مبحث سوم: چالش‌های کنوانسیون ثبت ۱۵۲
گفتارچهارم: کالبد شکافی موافقتنامه ماه و آسیبهای فرا روی آن ۱۵۷
مبحث اوّل: پیدایش موافقتنامه ماه و سایر اجرام آسمانی ۱۵۷
مبحث دوم: چالش‌های حقوقی ناشی از موافقتنامه ماه و سایر اجرام آسمانی ۱۵۹
مبحث سوم: مالکیت و انتقال منابع استحصالی از ماه : تقابل با «میراث مشترک بشریت»؟ ۱۶۴
فصل دوم: چالش‌های مؤخر بر معاهدات حقوق فضا ۱۶۹
گفتار اول: حقوق مالکیت درفضا ۱۷۰
مبحث اوّل: ممنوعیت تملیک فضا و اجرام سماوی ۱۷۰
مبحث دوم: چالش‌های حقوق مالکیت در فضا ۱۷۱
گفتار دوم: همکاری‌های بین‌المللی ۱۷۴
مبحث اوّل: عرصه‌های مختلف همکاری‌ ۱۷۴
مبحث دوم: حوزه‌های مختلف همکاری ۱۷۷
گفتارسوم: مشکل محیط زیست فضا و زباله های فضایی ۱۸۱
مبحث اوّل: محیط زیست فضا و پیامدهای حقوقی آن ۱۸۱
مبحث دوم : معضل زباله‌های فضایی ۱۸۷
مبحث سوم: اقدامات نهادهای فضایی در حفاظت ازمحیط زیست ۱۹۴
گفتارچهارم: توسعه فناوری‌های فضایی ۱۹۷
مبحث اوّل: ماهواره‌ها ۱۹۸
مبحث دوم: پرتابگرها و پایگاه ها و ایستگاه‌های فضایی ۲۰۴
الف) پرتابگرها و پایگاه های پرتاب ۲۰۴
ب) ایستگاه‌های فضایی ۲۰۶
ج) حقوق حاکم بر ایستگاه‌های فضایی ۲۱۰
د) چالش‌های حقوقی ایستگاه‌های فضایی ۲۱۲
مبحث سوم: وسایل و تجهیزات جدید فضایی ۲۱۲
مبحث چهارم: فضاپیماها و ویژگی‌های آنها ۲۱۶
مبحث پنجم: حقوق حاکم بروسایل حمل و نقل فضایی ۲۲۱
الف) انتخاب قانون حاکم ۲۲۱
ب) مقررات مربوط به ثبت و صلاحیت ۲۲۲
ج) مقررات مربوط به «پروازهای فضایی بین‌المللی» ۲۲۳

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت
[پنجشنبه 1400-09-25] [ 02:00:00 ق.ظ ]




آهن و سنـــگ از برونش مظلمی ‏ وز درون نوری و شمـــــع عالمی‏
درج در خوفی هزاران ایـــــمنی‏ در سواد چشم چندیـــــن روشنی‏
ای مبــــدّل کرده خاکی را به زر خاک دیـــــــگر را نموده بوالبشر
ای که خاک شــوره را تو نان کنی ‏ ای که نان مـــــرده را تو جان کنی‏
ای که جان خیــــره را رهبر کنی‏ ای که بی‏ره را تو پیغمبــــــر کنی‏
ای که خاک تیـره را تو جان دهی‏ عقل و حسّ و روزی و ایمان دهی‏
شکر از نی میـــوه از چوب آوری‏ از منی مرده بت خــــــوب آوری‏
گل ز گل صفوت ز دل پیــدا کنی‏ پیه را بخشی ضیــــــاء و روشنی‏

ایک ایسی بات هے جو صرف شاعرانه حیثیت کے سوا کچھ نهیں هے اور اجتماع نقیضین کو محال سمجھنے والوں کی مراد مطلق وجود اور عدم هیں نه که نسبی تدریجی اور سیال۔(۱)
اس سے بھی حیران کن بات یه هے که یه سائنسدانحضرات ان شاعرانه باتوں کے علاوه“نفی نفی” سے “اثبات”کا نتیجه لیتے هیں۔

(۱) یه اعتراض بھی مثلث “تز، اینٹی تز،سنتز”کے بارے میں هیگل کی تعبیر اور تفسیر کی بنیاد پر وارد هے جسے اجتماع نقیضین کی بنیاد پر فرض کیا گیا هے۔
پهلے بیان هوا که هیگل اور اس کے پیروکار جس چیز کو “ تناقض”اور “اجتماع نقیضین” کانام دیتے هیں اس سے جسے منطق اور فلسفه اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے هیں اور اسے ممتنع سمجھتے هیں هزاروں میل کے فاصله پر هے ۔ اور یه که “صیرورتها” اور “شدنها” میں وجود اور عدم آپس میں مرکب هوئے هیں اور اجتماع نقیضین کوتشکیل دیا هے کوئی سنجیده بات نهیں هے بلکه مزاق سے زیاده شباهت رکھتی هے جو ایک غیر معمولی جِدّت پسندی اور روشن خیالی سے وجود میں آئی هےبهتر هے ان باتوں میں سنجیدگی نه لیں اور انهیں ایک قسم کی مجاز اور تشبیه تلقی کریں۔ اگر اس طرح کی تعبیرات کو ملاک قرار دیں تو ضروری هے هم اپنے عرفاء کو هیگل سے پهلے جدلیاتی مان لیں کیونکه عرفاء هیں جنهوں نے مکرراً کها هے که “هستی ، نیستی کے اندر هے”، “بقاء فناء میں هے”۔ ایک عارف کهتا هے:
عاقل زهست گوید و عارف ز نیستی من در میان آب و گل هست و نیستم
عاقل کهتا هے “هے” اور عارف کهتا هے“نهیں هے” میں “هستی اور نیستی” کے دلدل میں هوں
عبرت نائینی[۹۵] کهتا هے :
چون نور که از مهر جدا هست وجدانیست ‏ عالم همه آیات خدا هست و خدا نیست‏
در آینه بینیـــــــــد همه صورت خود را آن صورت آئینه شما هست و شما نیست‏
هر جا نگری جلوه گه شاهـــد غیبی است ‏ او را نتوان گفت کجا هست و کجا نیست‏
این نیستی هست نما را به حقیــــــــقت‏ در دیده ما و تو بقا هست و بقا نیـــست‏
درویش که در کشور فقــــر است شهنشاه‏ پیش نظر خلق گدا هست و گدا نیـــست‏
بی مهری و لطف از قبل یار بـــه “عبرت” از چیست ندانم که روا هست و روا نیست‏
حقیقت یه هے که خود هیگل بھی اس نکتے کی طرف متوجه تھا که جسے وه جمع نقیضین کهتا هے اس چیز کا غیر هے جسے منطق اور فلسفه ممتنع سمجھتے هیں۔ هیگل کے پیروکار خود هیگل سےزیادہ “هیگلسٹ” نکلے هیں۔ پل فولکیه جدلیات کے کتابچہ میں “هیگل کی جدلیات اور تناقض” کے عنوان کے تحت کهتا هے:
“هیگل کےعقیدے میں جدلیاتی روش جس کے مطابق فکرو اندیشه (مثال مطلق) طبیعت اور ذهن میں واقعی صورت قبول کرتی هے ، تناقض کی بنیاد پر مبنی هے۔ لیکن ضروری هے متوجه هوں که هیگل کی جدلیات اصل عدم اجتماع ضدین کو کلی طور پر رد نهیں کرتی هے۔ اس لحاظ سے قدیم جدلیات کے ساتھ جو اصل عدم اجتماع ضدین کو اپنی اصلی بنیاد جانتی هے، کوئی فرق نهیں رکھتی۔ … هیگل اگرچه ظاهراً اس کے برخلاف اظهار کرتا هے لیکن باطن میں باقی تمام لوگوں کی طرح اصل عدم اجتماع ضدین کو قبول کرتا هے۔ …”[۹۶]
پل فولکیه کتاب مابعد الطبیعه کے صفحه نمبر ۳۶۹ پر کهتا هے که:
“…۔ خود هیگل بھی اس چیز کے برعکس جو کبھی کبھار اس کی طرف نسبت دی جاتی هے کہ هیگل اجتماع متناقضین کے ممتنع هونے کا قائل تھا۔ اجتماع اور ارتفاع نقیضین کے باب میں اس کی یه بات ظاهری تناقض سے مربوط هے نه واقعی۔ هیگل اس بات کا قائل تھا که جو چیز انسانی فکر میں واقعاحقیقی هے همیشه حقیقی ره جاتی هے اور وه چیز بعد کی تمام تالیفات کے ضمن میں قرار پاتی هے اور فکری پیشرفت سے مراد تنها علم کے ان حصوں کو دور کرنا هے جن کے غلط هونے کے بارے میں علم هو۔ [۹۷]

عمومی حرکت کے مفهوم کی وضاحت

جیسا که هم جانتے هیں که مادی علوم میں تحقیق کرنے والے سائنسدان وں نے ایک زمانے میں ماده(جسم کے غیر قابل تجزیه ابتدائی اجزاء) کو موضوعِ بحث قرار دے کر اس کی مختلف خصوصیات سے بحث کرتے تھے اور باوجود اس کے که بحث کی راه ادراک اور تجربه پر منحصر نهیں تھی پھر بھی اس بحث کو ادراک اور تجربے کے ذریعے آگے بڑھاتے تھے ۔
اسی روش کی بنا پر ان سائنسدانوں کے مطابق“قضیه” کا مفهوم (حمل- یه وه هے)جیساکه هم نے مقاله نمبر ۱ میں اس بات کا تذکر دیا هے ، اس مفهوم کا غیر هے جو قضیے سے عمومی مفاهمت کے دوران همارے هاتھ آتا هےمثلا کها جائے که “انسان کھانا کھاتا هے” یا “پانی حرارت کی وجه سے بخار میں تبدیل هوتا هے” تو ان سائنسدانوں کے مطابق ان کا معنی یه هے که ماده کے تجزیه ناپذیر اجزاء کا مجموعه جسے لوگ “انسان” کا نام دیتے هیں کھانا کھانے کی خصوصیت رکھتا هے۔ اسی طرح مادی اجزاء کا مجموعه جسے پانی کها جاتا هے بخار میں تبدیل هو تا هے۔
جیساکه واضح هے اس صورت میں تأثیر اور تأثیر پذیری کی خاصیت مادے کی هے اور خصوصیات کا موضوع بھی وهی ماده هی هے جو مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص اثر اور خصوصیات کا حامل هوتا هے۔ حالانکه لوگوں کےپاس یه خصوصیات انسان اور پانی کی هیں چاهے وه مادے کے بارے میں علم رکھتے هوں یا نه رکھتے هوں۔(۱)

(۱) قدیم اور جدید (Ideology) کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے متمائز کرنے والے بنیادی مسائل میں سے ایک “صور نوعیه” هے۔ یه مسئله بهت هی اهمیت کا حامل هے ۔ مطلب کی وضاحت کے لئے ضروری هے مقدمهً کچھ باتیں ذکر هوں۔
دوسرے لفظوں میں هم نوعی صورتوں “انسان”، “گھوڑا”،”درخت” اور “پانی” اور اس طرح کے دوسری چیزوں کو موضوع قرار دیتے هیں اور ایک طبیعی سائنسدان مادے کو موضوع قرار دیتے هیں۔

جیساکه هم جانتے هیں قدماء کائنات کے موجودات کی ایک خاص طریقے سے تقسیم بندی کرتے هیں ۔ ان کے مطابق موجودات (ممکن الوجود موجودات) جوہر اور عرض میں تقسیم هوتے هیں ۔ تمام جواهر ایک مقوله کی حیثیت رکھتے هیں یعنی ایک ذاتی اور ماهوی مابه الاشتراک میں جمع هوتے هیں ۔ لیکن اعراض مجموعاً ۹ (نو) مقولات کے تحت جمع هیں اور هر مقوله دوسرے سے متبائن هے۔
جواهر جو سب کے سب ایک مقولے کے تحت داخل هیں اور ایک مشترک ذات میں جمع هوتے هیں بھی مختلف انواع اور اقسام رکھتے هیں یعنی اس کے باوجود که ایک ذاتی اور عمومی امر میں مشترک هیں کچھ دوسرے ذاتی امور میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے هیں۔ مثلا جوهر ،جسم اور غیر جسم میں تقسیم هوتا هے اور جسم، نامی اور غیر نامی میں اور نامی، حیوان اور غیر حیوان میں اور حیوان، انسان اور غیر انسان میں تقسیم هوتا هے۔ قدماء کے نزدیک یه تقسیمات اشیاء کی ذات اور ماهیت سے مربوط هے یعنی جس طرح جوهر کی ماهیت اعراض میں سے هر ایک کی ماهیت کا غیر هے اسی طرح جسمانی جوهر کی ماهیت عقلانی جوهر کی ماهیت سے متفاوت هے۔ البته جسمانی اور عقلانی جوهر ماهیت کے ایک جز ءمیں ایک دوسرے کے ساتھ وحدت رکھتے هیں ۔ اسی طرح جسم نامی کی ماهیت ، جسم غیر نامی کی ماهیت سے متفاوت هے اور اسی طرح…
قدماء کے نزدیک مختلف الذات والماهیت جوهری انواع خارج میں وجود رکھتے هیں۔ منطق میں معروف بحث “کلیات خمس”(جنس ، نوع، فصل، عرض خاص اور عرض عام) اس فلسفی طرز تفکر کی بنیاد پر هے۔ اور اسی طرح رسم تام اور رسم ناقص کے مقابلے میں حد تام اور حد ناقص کا مسئله تعریفات کی بحث میں اسی بنیاد پر هے۔
لیکن اگر کوئی جوهر اور عرض کا منکر هوجائے یا جواهر کے ایک دوسرے سے اختلاف کو ذاتی اور ماهوی نه سمجھیں تو اس صورت میں خواسته یا ناخواسته جنس ، فصل اور نوع جو ان دونوں سے مرکب هوتا هے کی بحث کے لئے کوئی جگه باقی نهیں رهتی جس طرح حدِتام اور ناقص کے لئے کوئی جگه باقی نهیں رهتی ۔
پس حرکت عمومی(کائنات کا وجود مساوی هے توانائی کے اور جو بھی هے صرف حرکت هے) کا نظریه یا فرضیه پیش هونے کے بعد سائنسی مسائل کے مفاهیم دوسرے لفظوں میں “قضیه” کے مفهوم (منطقی اصطلاح میں حمل) میں جدید تحول پیدا هوا جس سے طرز تفکر بالکل بدل گیا۔

اسی طرح فلسفه کی معروف بحث “ماده اور صورت ”کے لئے بھی کوئی جگه نهیں رهتی اس تفاوت کے ساتھ که “ماده اور صورت” کی بحث ماهوی اختلافات کے نظریے کی بنیاد پر هے جبکه کلیات حدود اور تعریفا ت کی بحث اس مسئلے کی فرع اور نتیجه هے۔
اب هم کهیں گے ممکن هے کوئی اشیاء کے ماهوی اختلافات کا منکر هو اورکهے که کس دلیل کی بنیاد پر خارج میں موجود مختلف اشیاء ذات اور ماهیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی هیں ؟ کیا چیز مانع بنتی هے که یه تمام ایک ذات اور ایک ماهیت هوں اور ان کے اختلافات سطحی اور عارضی هوں؟ صرف نام کا اختلاف که ایک جماد ، دوسرا نبات اور تیسرا حیوان هے دلیل نهیں بن سکتا که یه آپس میں ذات اور ماهیت کے لحاظ سے مختلف هوں۔ تمام اشیاء مادی اجزاء کے ایک سلسلے سے تشکیل پاتے هیں اور ان کی ماهیت کو اسی مادے کے اجزاء جو هر ایک میں موجود هیں تشکیل دیتے هیں ۔ ان کے درمیان پایا جانے والا اختلاف جسمانی ساخت اور بناوٹ کی کیفیت میں هے ۔ بدیهی هے که ساخت کی کیفیت میں اختلاف سبب نهیں بنتا هے که ایک هی چیز سے تشکیل پانے والی اشیاء کے اختلافات ماهوی اور ذاتی هوں۔ جس طرح شهر کی هر عمارت ایک خاص شکل اور ترکیب رکھتی هے اور ایک معین هدف کے لئے مفید هے اور هر ایک خاص نام رکھتی هیں۔ ایک مدرسه هے، دوسری مارکیٹ، تیسری گیراج ، چوتھی مسجد اور پانچویں حمّام … حالانکه ان میں سے هر ایک اینٹ ، پتھر ، لوها، سیمنٹ، چونااور مٹی وغیره کا مجموعه هے ۔ مختلف مشینیریاں مانند موٹرکار، هوائی جهاز، فولاد کا کارخانه اور اسلحے کی فیکٹری وغیره جو سب کے سب مختلف بناوٹوں اور ترکیبوں کے باوجود مختلف دھات کا ایک مجموعه هے ۔ ان عمارتوں اور مشینوں کے اختلافات صرف اور صرف بناوٹ، ترتیب ، شکل اور هدف میں هے جو ان سے مقصود هے ۔ کبھی بھی کسی نے یه دعوا نهیں کیا هے که یه تمام عمارتیں اور مشینیں ماهیت ، ذات اور نوعیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف هیں۔
مثلا پهلی والی مثال میں “انسان کھانا کھاتا هے” کا مفهوم یه هے که هم خواص کے مجموعے یا واضح الفاظ میں حرکات کے مجموعے کو جو واقع میں یکساں هیں وضعی اور قرادادی بنیاد پر “انسان” نام رکھتے هیں اور اس کے بعد اس مذکوره مجموعے کی بعض خواص اور حرکات کو ایک جوهری ذات قرار دیتے هوئے “کھانے” (بعض دیگر خواص اور حرکات) کو اس کا خاصه شمار کرتے هیں ۔

وه موجودات جنهیں هم مختلف ماهیات خیال کرتے هیں اور جن کے اختلافات کو ذاتی اور نوعی گمان کرتے هیں اور انهیں مختلف انواع اور اجناس کی صورت میں تقسیم بندی کرتے هیں، بھی مادی ذرات کا ایک مجموعه هے جو آپس میں مل کر ایک خاص شکل اور نظم کو تشکیل دیتے هیں جسے هم جماد، نبات، حیوان اور انسان کا نام دیتے هیں۔ اصطلاحا اگر ان میں سے هر ایک کے بارے میں “ما هو؟” کے ذریعے سوال کیا جائے تو جواب یه هوگا که :“فلان نظم اور فلان مکانیزم کے ساتھ ذرات کا ایک مجموعه هے”۔
یه نظریه طویل تاریخ رکھتا هے۔ ڈیماکریٹس اور اس کے استاد لوسیبوس جو اجسام کو کچھ ذرات سے مرکب سمجھتے تھے اور اسی طرح ایپی کیورس [۹۸] اس جهت سے ڈیماکریٹس کی پیروی کرتے تھے موجودات کے بارے میں ان کا نظریه بسیط عناصر سے لے کر مرکبات تک هو بهو یهی هے۔ ڈیماکریٹس کهتا هے:
“صحت اور حقیقت رکھنے والی چیز صرف ذرات اور خلاء هیں”[۹۹]
بو علی سینا نےمنطق شفا میں مختلف جگهوں پر مختلف مناسبتوں سے ڈیماکریٹس کے نظریے کو نقل کیا هے۔ عصر حاضر کے علماء نے بھی اس کے بارے میں ان کے اقوال کو زیاده صراحت کے ساتھ نقل کیا هے ۔

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت
 [ 02:00:00 ق.ظ ]




 

مانینوهمکاران (۲۰۱۱)

 

بهره وری در صنایع چین بر اساس رویکرد مقایسه بین اللملی تولید و بهره وری

 

رشد بهره وری نیروی کار در چین بسیار کندتر از آمریکاست که این امر نشان دهنده افزایش شکاف بهره وری بین این دو کشور است.

 
 

شریفمحمدوکرب سری ناوین (۲۰۱۱)

 

پیش بینی تغییرات بهره وری نیروی کار در ساخت و ساز با بهره گرفتن از شاخص pmv

 

نتایج بدست آمده و اطلاعات موجود نشان می دهد داده های بهره وری مشاهده شده با آنچه که توسط شاخص pmv پیش بینی شده است هماهنگی کامل را دارد.

 
 

گالدینورولورنت (۲۰۰۸)

 

تأثیر اقدامات زیست محیطی و تکنولوژی بر روی بهره وری و کارایی کارخانجات، مطالعه موردی کارخانجات تولید مواد غذایی در جنوب شرقی اسپانیا

 

نتایج این تحقیق نشان می دهد سرمایه گذاری اندک بر روی فعالیت های تحقیق و توسعه در مقایسه با با بخش صنعتی، همراه با نیازهای زیست محیطی اخیر و کنترل های محیطی در داخل کارخانجات منجر به تغییرات مهمی در سازمان ها و مدیریت بهره وری آنها شده است.

 

ماخذ : گردآوری محقق
فصل سوم
روش تحقیق
۳-۱- مقدمه
۳-۲- مبانی نظری
۳-۲-۱-سابقه و مفهوم بهره وری
۳-۲-۲- مفهوم والگوهای اندازه گیری بهره وری نیروی کار
۳-۲-۳ -عوامل موثر بر بهره وری نیروی کار
۳-۲-۴-عوامل کاهش دهنده بهره وری نیروی کار
۳-۲-۵-علوم مرتبط با بهره وری نیروی کار
۳-۲-۶- تعریف آسایش حرارتی
۳-۲-۷-روش های تعیین آسایش حرارتی
۳-۲-۸-تنشهای حرارتی و انسان
۳-۲-۳- ۱- تخمین محدوده آسایش
۳-۳- تغییرات بهره وری نیروی کار در بخش ساخت و ساز با بهره گرفتن از شاخصPMV و تصریح مدل
۳-۴- ابزار های گردآوری
۳-۵- روش تحقیق
۳-۱- مقدمه
در این فصل ابتدا به بررسی سابقه و مفهوم بهره وری، الگوهای اندازه گیری بهره وری نیروی کار، عوامل موثر بر بهره وری نیروی کار، علوم مرتبط با محیط کار و سلامت انسان (ارگونومی[۳۳] و بیوریتمولوژی[۳۴] ) و رابطه آنها با بهره وری، روشهایتخمین آسایش حرارتی و تعریف شاخص آسایش حرارتی میانگین آراء پیش بینی شده (PMV) پرداخته و سپس روش تحقیق مورد استفاده بررسی خواهد شد.
۳-۲- مبانی نظری
۳-۲-۱- سابقه و مفهوم بهره وری
از آغاز خلقت بشر تاکنون انسان همواره درصدد بوده تا با توجه به محدودیتهای خاص زمانی و مکانی موجود، از منابع در دسترس حداکثر استفاده را ببرد، بنابراین سابقه بهره وری را باید به قدمت تاریخ بشر پیوند داد.

( اینجا فقط تکه ای از متن پایان نامه درج شده است. برای خرید متن کامل فایل پایان نامه با فرمت ورد می توانید به سایت feko.ir مراجعه نمایید و کلمه کلیدی مورد نظرتان را جستجو نمایید. )

مفهوم بهره وری نخستین بار در عقاید و نوشته های اندیشمندان اقتصادی مکتب مرکانتیلیسم مطرح شد، به گونهای که ژان فوراسته[۳۵]مینویسد اولین بار این واژه در کتابی از آگری کولا[۳۶] به نام متالیکا[۳۷] مطرح شده است.
اما در قرن هجدهم فیزیوکراتها نظیر فرانسوا کنه[۳۸]به این واژه مفهوم قدرت تولید کردن دادند. همچنین میتوان از اقتصاددانانی نظیر آدام اسمیت و کارل مارکس نام برد که در ارائه مفهوم مناسب از بهره وری در دنیای معاصر تاثیر موثری داشتند.(اشراقی،۱۳۸۹)
اوایل قرن بیستم آلبرت آفتالیون[۳۹] در مقالهای بهره وری را در مفهوم فعلی آن به کار برد. وی معتقد بود بهره وری را میتوان به عنوان رابطه بین حجم تولیدی که در مدت معین به دست آمده و حجم کامل عواملی تعریف کرد که در جریان تولید به مصرف رسیدهاند (خاکسار ، ۱۳۸۰)
بهره وری به یک معنی نسبت ستانده به نهادهها یا محصول متوسط تولید شده به ازای هر واحد از نهاده است . به عبارت دیگر، بهره وری در واقع میزان نسبی کارایی منابع تولید مانند کار و سرمایه است. در این مفهوم، بهره وری شاخص استفاده موثر، مفید و کارا از منابع گوناگون است (قره باغیان ،۱۳۷۶). در متون اقتصادی، تعاریف متفاوتی برای بهره وری ارائه شده است که همه آنها به گونهای به استفاده صحیح و کارآمد از منابع در راه تحقق اهداف تعیین شده، اشاره دارد.در این متون،بهره وری به عنوان معیار و ابزار سنجش کارایی فعالیتهای اقتصادی قلمداد میشود. چرا که تلاش برای بهبود این شاخص را بخشی از زندگی اقتصادی و اجتماعی تشکیل داده و جنبه های گوناگون زندگی مادی و معنوی را در ارتباط نزدیک با یکدیگر قرار میدهد. بنابراین، بهره وری مفهوم گستردهتری از یک معیار اقتصادی به خود میگیرد.
سازمانهای بین المللی و منطقهای نظیر سازمان بین المللی کار چنین بیان میکند که محصولات مختلف با ادغام چهار عامل اصلی زمین، سرمایه، کار و سازماندهی حاصل میشود. نسبت این عوامل به تولید معیاری برای سنجش بهره وری است. همچنین آژانس بهره وری اروپا بهره وری را درجه استفاده موثر از هر یک از عوامل تولید دانسته و معتقد است که بهره وری یک دیدگاه فکری بوده که همواره میخواهد آنچه در حال حاضر موجود است را بهبود بخشد. مرکز بهره وری ژاپن هدف بهبود بهره وری را به حداکثر رساندن استفاده از منابع، نیروی انسانی، تسهیلات و غیره به روش علمی و با کاهش هزینه های تولید،گسترش بازارها، افزایش اشتغال، کوشش برای افزایش دستمزدهای واقعی و بهبود معیارهای زندگی میداند آن گونه که به نفع کارکنان، مدیران و مصرف کننده باشد.بدین ترتیب در تعاریف ارائه شده، برای مفهوم بهره وری، سه زاویه یعنی افزایش سطح تولید،کاهش به کارگیری عوامل تولید، و مدت زمان مورد نظر، قابل توجه بوده که ترکیب این سه میتواند هدف نهایی بهره وری را بهبود بخشد.
۳-۲-۲-بهره وری نیرویکار
بهره وری عبارت است از به حداکثررساندن استفاده از منابع، نیروی انسانی و تمهیدات به طریق علمی به منظور کاهش هزینه ها و رضایت کارکنان، مدیران و مشتریان. تعاریف دیگر بهره وری را، حداکثر استفاده مناسب از نیرویانسانی به منظور حرکت در جهت اهداف سازمان با کمترین زمان و حداقل هزینه دانسته اند.امروزه، نقش و اهمیت نیروی انسانی در فرایند تولید و ارائه خدمات در جوامع بشری به عنوان مهمترین عامل مشخص شده است .با نگاهی به مراحل تمدن بشری مشخص میشودکه نقش نیرویانسانی از نیرویکارساده به سرمایه انسانی تکامل یافته است، چرا که پیشرفت تکنولوژی بدون تحولات نیرویانسانی فاقدکارایی است. در عصر حاضر دیگر تزریق منابع مالی به عنوان فاکتور اصلی توسعه به شمار نمیآید بلکه تحولات و بهره وری نیرویانسانی با رشد خود سبب ارتقاء سازمانها و به تبع آن توسعه نظام های اقتصادی در جهان میشوند، به نحوی که سرمایه های انسانی میزان سرمایه های مادی را تعیین میکنند .بنابراین رشد بالای بهره وری خصوصاً بهره وری نیروی انسانی همه فعالیتهای اقتصادی و اجتماعی را تحت تاثیر قرار میدهد .استفاده صحیح از نیرویانسانی به مثابه ارزشمندترین و بزرگترین ثروت هر جامعه به صورت مسئلهای حائز اهمیت مورد توجه دولتها بوده است .به عبارت دیگر میتوان گفت که انسان هم هدف توسعه و هم عامل آن محسوب میشود و تحقق اهداف توسعه تا حد قابل توجهی به نحوه اداره و مدیریت این ثروت و منبع حیاتی بستگی یافته است. بنابراین بهره وری منابع انسانی یکی از رکنهای مهم هر موسسه یا سازمان میباشد.(پدرام ،۱۳۹۰،ص۲۳).
۳-۲-۳-الگوهای اندازه گیری بهره وری نیروی کار
در ادبیات اقتصادی، موضوع بهره وری به دو صورت کلی و جزئی بررسی میشود. بهره وری جزئی انعکاسی از روش بهکارگرفته شده در تولید است و به صورت نسبت ستانده به نهاده (کار، سرمایه و انرژی) قابل اندازه گیری است، درحالیکه بهره وری کلی، آن بخشی از رشد تولید را که نمیتوان به رشد عوامل تولید نسبت داد اندازه گیری میکند. با توجه به موضوع این مطالعه، در اینجا به اختصار به بهره وری جزئی عوامل تولید اشاره میشود.
بهره وری جزئی عواملتولید، نسبت ستانده به یکی از دادههاست. این مفهوم در مقابل بهرهوریکلی یا چندگانه عوامل تولید مطرح میشود و دردو قالب بهره وری متوسط و نهایی عامل تولید بحث انگیز است.
الف) بهره وری متوسط: اگراین نسبت به صورت کسر ساده و نسبت ستانده به یکی از داده ها ارائه شود، متوسط بهره وری عامل یا بهره وری متوسط عامل گفته میشود:
APij =   , i= k , l , E (3-1)
در رابطه فوق APij عبارت است از بهره وری متوسط ، عامل i عبارت است از نیرویکار، سرمایهو انرژی در بخش j ، VAعبارت است از ارزش افزوده بخش j و Fij برابر است با نهاده یا عامل i ( نیروی کار، سرمایه و انرژی) در بخش j . در صورتی که i نماینده عامل نیروی کار باشد، شاخص به دست آمده بهره وری متوسط نیرویکار است و اگر منعکس کننده عامل سرمایه یا انرژی باشد، این شاخص متوسط سرمایه یا انرژی را نشان خواهد داد.

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت
 [ 01:59:00 ق.ظ ]




توجه جدی به مفهوم بهره وری و استفاده بهینه از امکانات و منابع سازمان ها امری روشن و بدیهی است و برای افزایش نرخ بهر ه وری، بازبینی در روش ها ی اداره سازمان و در صورت لزوم تجدیدنظر در آنها اجتناب ناپذیر می باشد. از نظر علمی، روش ها ی متعددی وجود دارد که مدیران می توانند در انتخاب راه حل های استفاده مناسب و عقلایی از منابع از آنها کمک بگیرند. سازمان ها در سراسر جهان به دنبال تکنیک ها و روش هایی برای حفظ و توسعه مزایای رقابتی خود هستند. استفاده از روش های نوین مدیریت خدمات، از جمله واگذاری که در آن تمام یا بخشی از فعالیت های سازمان به افراد یا سازمان های بیرونی واگذار می شود، یکی از روش های بهره وری است که در دو دهه اخیر مورد توجه قرار گرفته است. واگذاری در سال های اخیر خود را به عنوان یکی از این رویکردها ی پراهمیت معرفی کرده است . بعضی از شرکت ها به منظور بهبود کیفیت خدمات و محصولات، کاهش هزینه و زمان تولید، تمرکز بر روی مزیت ها ی اصلی رقابتی و به طور کلی افزایش اثربخشی سازمان ، اقدام به واگذاری برخی فعالیت ها نمود ه اند و چنین به نظر می رسد که شرکت ها با واگذاری فعالیت های خود به سازمان های تخصصی دیگر، بهتر می توانند بر روی فعالیت هایی که ارزش افزوده بیشتری ایجاد می کنند، تمرکز کرده و بدین طریق اثر بخشی فعالیت های خود را به حداکثر برسانند .

( اینجا فقط تکه ای از متن پایان نامه درج شده است. برای خرید متن کامل فایل پایان نامه با فرمت ورد می توانید به سایت feko.ir مراجعه نمایید و کلمه کلیدی مورد نظرتان را جستجو نمایید. )

از نظر کلی[۲] و راشید[۳] (۲۰۰۰واگذاری عبارت است از عقد قرارداد با عرضه کننده بیرونی برای انجام فعالیت هایی که قبلاً در شرکت انجام می شد، یا انجام فعالیت هایی که کاملاً جدید هستند. بنابراین، تصمیم گیری برای واگذاری از جمله مسائلی است که باید کلیه ملاحظات سازمانی، موارد پیش نیازی و شرایطی آمادگی سازمان و مراحل بکارگیری و مدیریت و کنترل فرایند در مورد آن در کانون توجه قرار گیرد .
امروزه، بسیاری از شرکت ها با تمرکز بر یک تخصص و یا مهارت ویژه فقط برای ارائه خدمات به مجموعه ای بیرون از خود فعالیت می کنند. تحقیقات نشان می دهد منافع حاصل از واگذاری برای بسیاری از شرکت ها، زیاد بوده و مهمترین آنها صرفه جویی در وقت و هزینه و ارتقای کیفیت و آزادسازی منابع داخلی به منظور استفاده بهینه از آنها بوده است.
در کشور ما به دلایل مختلف، واگذاری به مفهوم وسیع و گسترده خود مورد استفاده و توجه مدیران و مسئولان قرار نگرفته است . از این رو لازم است محققان و مدیران صنعتی در جهت بکارگیری آن و نیز بایدها و نبایدها در انجام آن به مطالعه و تحقیق بپردازند تا طبق شرایط مشخص علمی و روشن بدانیم چه چیز را، چه وقتی و به چه طریقی و به چه کسی بسپاریم.
۱-۲ اهمیت و ضرورت تحقیق
در گذشته، واگذاری زمانی مورد استفاده قرار می گرفت که سازمان ها نمی توانستند خوب عمل کنند. در رقابت ضعیف بودند، کاهش ظرفیت داشتند، با مشکل مالی روبرو بودند و یا از نظر فناوری عقب و شکست خورده بودند.
امروزه سازمان هایی که کاملاً موفق هستند نیز از این ابزار برای تجدید ساختار سازمان هایشان استفاده می کنند و مدیران این سازمان ها به عنوان یک موضوع حیاتی این موضوع را درک کرده اند که ایجاد قابلیت های کلیدی برای برآورده نمودن نیازهای مشتری ضروری است و باید دراین راه تلاش نمایند.
تحقیقات نشان می دهد که افزایش واگذاری می تواند منجر به کاهش هزینه ها شده و نیاز به سرمایه گذاری در زمینه تسهیلات، تجهیزات و نیروی انسانی را پایین بیاورد. از سوی دیگر شواهدی نیز حاکی از این است که افزایش واگذاری می تواند نوآوری و کنترل برروی کارها را کاهش دهد . واگذاری را شکلی از فعالیت پیمانکاری می دانند که قبلاً در شرکت انجام می شده است و اکنون انجام آن امور به دیگران واگذار شده است.
برای سپردن کار به بیرون متاسفانه بنگاه ها و سازمان های ما به وظایف دیگری که برعهده آنها گذاشته می شود، توجهی ندارند در صورتی که باید در هنگام واگذاری به برقراری مکانیزم های واگذاری بپردازند و با مدیریت صحیح، توانایی مانیتور کردن شرکتی را که کار به او واگذار شده، داشته باشند و به گزارش مداوم بپردازند.
همچنین شرکتی که تمایل به دریافت خدمات واگذاری دارد، باید متخصص انجام آن کار باشد و فعالیت هایش منحصر به خدمت گرفته شده باشد . همچنین شرکت خدمت گیرنده باید بتواند فعالیت خود را طوری تنظیم کند تا قابلیت کنترل شدن را داشته باشد و امکاناتی را به منظور مانیتور کردن امور فراهم کند.
فعالیت هایی که در محور فعالیت های اصلی سازمان قرار ندارند، باید واگذاری شوند و فقط کارهایی که به موضوع اصلی فعالیت سازمان مربوط بوده یا قیمت و شرایط انجام آن بهتر باشد، می توانند در داخل مجموعه انجام شوند . متأسفانه نگاه مدیران ما در مورد واگذاری با ناآگاهی همراه شده و دیدگاه مناسب در این زمینه کمتر وجود دارد، چنانچه بخشی فکر می کنند در صورتی که کار را به بیرون واگذار کنند، آن کار به طور صحیح انجام نشده و با کیفیت پایین تر و هزینه بیشتر انجام می پذیرد . در حالی که اگر کارفرما، کار را صحیح مطرح و بر آن کنترل داشته باشد، کیفیت خدمات افزایش می یابد.
رویکرد سیستماتیک در واگذاری امری حیاتی است و به عنوان یکی از عوامل بحرانی موفقیت در مدیریت تدارکات و مشارکت های پروژه های تحیقاتی، به این مساله پرداخته شده است . مساله واگذاری در سازمان ها موضوعیت دارد . اما در پروژه های تحقیقاتی بواسطه وجود ریسک از دست رفتن دانش انحصاری سازمان اهمیت دو چندانی می یابد. نتیجه این امر افزایش آگاهی نسبت به اهمیت تصمیمات واگذاری شده است .
تصمیمات واگذاری مقداری از منابع و سرمایه را جهت صرف در موارد دیگر آزاد می سازد. واگذاری به این صورت سبب کاهش هزینه ها حتی تا ۳۹% شده است، جدا از اینکه منافعی مثل وارد شدن به بازارهای کلیدی نیز به این ترتیب و با این مشارکت ها تسهیل شده است . اولین موج واگذاری فعالیت ها به فعالیت هایی که مستلزم مهارت ها ی سطح پایین بودند محدود می شد، مثل مشاغل صنعت نساجی یا صنعت اسباب بازی .
دومین موج شامل صنایعی مثل تهیه نرم افزارها، پردازش کارت های اعتباری و مواردی از این دست بود . سومین موج یا موجی که الان در جریان است شامل فعالیت هایی می شود که دارای دستمزد بالایی هستند و نیاز به مهارت های سطح بالا دارند که از جمله آنها می توان به طراحی تراشه، مهندسی، تحلیل های مالی، داروسازی و تحقیق و توسعه اشاره نمود.
با بررسی ساختار هزینه شرکت های تولیدی در کشورهای مختلف نتایج مشابهی گزارش شده است . همه آنها بیان می کنند که مو اد و قطعات /فرآیندهای خریداری شده از تأمین کنندگان به طور متوسط۵۰% کل هزینه ها ی تولیدی را تشکیل می دهد . بنابراین هزینه های مدیریت زنجیره تأمین، یک عنصر اصلی در مدیریت هزینه کل و افزایش سودآوری شرکت می باشد. شواهد حاکی از آن است که در گذشته رابطه تأمین به صورت سیستماتیک انجام نمی شده است . اما در سال ها ی اخیر مدل ها یی در این رابطه ارائه شده است.
تصمیمات تأمین تنها به مواد و قطعات / فرآیندهای محصول ، محدود نمی شود و در رابطه با فعالیت های غیر تولیدی از قبیل خدمات پشتیبانی نیز قابل کاربرد است. در اکثر سازمان ها، تصمیمات تأمین بالقوه زیادی وجود دارد . به طور مثال، شرکت های تولیدی صدها قطعه دارند که می تواند از داخل یا خارج سازمان تأمین گردد.
نتیجه تصمیمات کاملاً متأثر از کیفیت اطلاعات در دسترس و فرضیات استفاده شده در تحلیل می باشد. در کنار ملاحظات هزینه و سود، در تصمیمات تأمین، مسائل استراتژیک، ارزیابی مالی، ابعاد کارایی و ریسک در رابطه با کیفیت تأمین کننده ، قابلیت اطمینان، زمان های پیشبرد و تحویل مد نظرقرار می گیرند. زمانیکه تمام این فاکتورها با هم در نظر گرفته می شوند، تصمیم تأمین می تواند یک تصمیم بسیار پیچیده و حساس باشد که بر سودآوری، سرمایه گذاری و موقعیت رقابتی تأثیر می گذارد. یک تصمیم اشتباه می تواند منجر به هزینه های محصول بالاتر، حیف و میل و از دست دادن فرصت ها، مشتریان و سهم بازار شود.
۱-۳ اهداف تحقیق
۱-۳-۱ هدف کلی :
تجزیه و تحلیل آثار ناشی از واگذاری کارها به پیمانکاران بر عملکرد شهرداری شهرهای با تاکید بر شهر شوشتر و ارائه پیشنهادات لازم به منظور بهبود آنها.
۱-۳-۲ اهداف جزئی :
۱)تأثیر واگذاری شهرداری شوشتر بر کیفیت ارائه خدمات به شهروندان
۲)تأثیر واگذاری شهرداری شوشتر بر زمان انجام تعهدات به شهروندان
۳)تأثیر واگذاری شهرداری شوشتر بر بالا بردن درآمدها
۴)تأثیر واگذاری شهرداری شوشتر بر کنترل هزینه ها
۵)تأثیر واگذاری شهرداری شوشتر بر ایمنی کارکنان
۱-۴ سوالات تحقیق
در این تحقیق به سؤالات ذیل پاسخ داده می شود:
۱-آیا واگذاری کارها به پیمانکاران موجب بهبود عملکرد سازمانی شده است؟
به منظور یافتن پاسخ برای سوال فوق، تأثیر واگذاری کارها به پیمانکاران در موارد
ذیل مورد بررسی و تحقیق قرار گرفته است:

    • کیفیت ارائه خدمات به مشتریان،
    • زمان انجام تعهدات به مشتریان،
    • ایمنی،
    • روحیه و انگیزه کارکنان،
    • هزینه ها
    • درآمدها

۲- برای بهبود عملکرد شهرداریها در ارتباط با واگذاری کارها به پیمانکاران چه باید کرد؟
۱-۵ فرضیات تحقیق
به نظر می رسد بین واگذاری و تحقق اهداف مالی در شهرداری شوشتر رابطه معنادار وجود دارد.
به نظر می رسد بین واگذاری و تحقق رضایتمندی مشتری ها در شهرداری شوشتر رابطه معنادار وجود دارد.
به نظر می رسد بین واگذاری و کیفیت خدمات ارائه شده به مشتریان در شهرداری شوشتر رابطه آماری وجود دارد.
به نظر می رسد بین واگذاری و روحیه و انگیزه کارکنان در شهرداری شوشتر رابطه معنادار وجود دارد.

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت
 [ 01:59:00 ق.ظ ]




البته و با تمام این اوصاف، تضاد موجود میان ممنوعیت جنگ از نظر حقوق بینالملل و به عنوان یک اصل را با اجرای مقررات حقوق جنگ، نمی توان نادیده گرفت. بعلاوه بایستی به عدم کارائی حقوق پیشگیری کننده جنگ نیز اعتراف نمود؛ حقوقی که با پریده جنگ که یک نهاد غیرقانونی ولی واقعی است، هم ارز بوده و در کنار یکدیگر قرار دارند.
۲-۵- ختم اجرای مقررات حقوق بین الملل بشر دوستانه
«یکی از علل اختتام قراردادهای بین المللی علاوه بر فسخ، تعلیق، کناره گیری و…، جنگ است؛ زیرا ظاهرا بین جنگ و وجود قراردادهای بین المللی یک نوع عدم هماهنگی و تضاد وجود دارد. قراردادها تجلیات روابط صلح جویانه میان کشورها هستند؛ در حالیکه جنگ این روابط را قطع می کند و معمولا بطور قهری و ضمنی به حیات آنها خاتمه می دهد. اما این اصل کلی، استثنائاتی به شرح زیر دربر دارد:
الف- مقررات مربوط به زمان جنگ، شامل قراردادهای دوجانبه یا چند جانبه ای است که اختصاصا به قصد اجرا در زمان جنگ منعقد شده است، مانند قراردادهای مربوط به طرز رفتار با اسیران جنگی یا منع استعمال برخی سلاحها یا موافقتنامه های ژنو راجع به صلیب سرخ و هلال احمر و غیره.
ب- امروزه بطور کلی پذیرفته شده است که قراردادهای دوجانبه ای که توسط کشورها منعقد می گردد، در صورتی در زمان جنگ لغو می شود که صرفا برای زمان صلح منعقد شده باشد، مانند قراردادهای تجاری، اقتصادی و مالی. اما قراردادهائی که خط مرزی را معین می کند، ارزش بین المللی خود را حفظ می نماید و عمل جنگ آثار این تعیین حدود را از بین نمی برد.
(( اینجا فقط تکه ای از متن درج شده است. برای خرید متن کامل فایل پایان نامه با فرمت ورد می توانید به سایت nefo.ir مراجعه نمایید و کلمه کلیدی مورد نظرتان را جستجو نمایید. ))

ج- جنگ نسبت به قراردادهای چند جانبه ، فیمابین کشورهائی که حالت بی طرفی خود را حفظ نموده و در جنگ شرکت نمی نمایند، این نوع قراردادها همچنان معتبر مانده و اجرا میشود. همچنین قراردادهای چند جانبه بین کشورهای در حال جنگ و کشورهای بی طرف پابرجا می ماند؛ مثلا هنگام جنگ ایتالیا و حبشه هیچیک از دو طرف متحارب عضویت در جامعه ملل را رها ننمود. از این طرز عمل می توان چنین نتیجه گرفت که قراردادهای چند جانبه ای که به موجب آن سازمانهای بین المللی تاسیس می گردند، حتی بین کشورهای در حال جنگ که عضویت چنین سازمانهائی را دارند، به حیات خود ادامه می دهد. بدیهی است در پایان جنگ و پس از برقراری صلح، این دسته از قراردادها دوباره برای کشورهای متحارب سابق به اجرا درمی آید، بدون آنکه احتیاج به وضع مقررات جدیدی باشد؛ مثلا قراردادهای اتحادیه پستی که اجرای آن در رابطه با دو کشور فرانسه و آلمان که در حال جنگ بودند (جنگ جهانی دوم) متوقف گردید، پس از پایان مخاصمه مجددا به اجرا درآمد».[۴۸]
فصل
سوم
حمایت از مجروحان و بیماران جنگی در اسناد بین المللی
۳-۱- کنوانسیونهای چهار گانه ژنو ۱۹۴۹
در ۱۲ اوت سال ۱۹۴۹ کنوانسیونهایی تحت عنوان کنواسیونهای چهارگانه ژنو از تصویب نمایندگان دول متعاهد گذشت که همگی به نوعی یکی از شرایط ایجاد امنیت و حمایت انسان دوستانه از نیروهای رزمنده را بیان می‌سازد.
۳-۱-۱- عهدنامه مربوط به بهبود سرنوشت مجروحان و بیماران نیروهای مسلح هنگام اردوکشی.
نمایندگان مختار دولتهای شرکت کننده در کنفرانس سیاسی که از ۲۱ آوریل تا ۱۲ اوت ۱۹۴۹ در شهر ژنو به منظور تجدید نظر در قرارداد ژنو راجع به بهبود سرنوشت زخمداران و بیماران در نیروهای مسلح هنگام اردوکشی مورخ ۲۷ ژوئیه ۱۹۴۹ تشکیل یافته نسبت به مراتب مشروحه زیر توافق حاصل نمودند :
الف) مقررات عمومی
ماده - ۱ دولتهای معظمه متعاهد تقبل مینمایند که این قرارداد را در هر مورد رعایت نموده به موقع اجرا گذارند
ماده ۲ - علاوه بر مقرراتی که باید در زمان صلح به موقع اجرا گذاشته شود
این قرارداد در صورت جنگ رسمی یا هر گونه مخاصمه مسلحانه که بین دو یا چند دولت از دول معظمه متعاهد روی دهد به موقع اجرا گذارده خواهد شد ولو آن که یکی از آن دول وجود حالت جنگ را تصدیق نکرده باشد این قرارداد در هر مورد که تمام یا قسمتی از خاک یکی از دول معظمه متعاهد اشغال شود نیز به موقع اجرا گذاشته خواهد شد ولو آنکه اشغال مزبور با هیچ گونه مقاومت نظامی مواجه نشده باشد.
هر گاه یکی از دول متخاصم عضو این قرارداد نباشد دولتهای متخاصم دیگر که در این قرارداد شرکت کردهاند در روابط متقابل خود تابع این قرارداد خواهند بود و چنانچه آن دولت مقررات این قرارداد را قبول و اجرا کند در مقابل او نیز ملزم به اجرای این قرارداد خواهند بود
ماده - ۳ چنانچه نزاع مسلحانه جنبه بین المللی نداشته باشد و در خاک یکی از دول معظمه روی دهد هر یک از متخاصمین مکلفند که لااقل مراتب ذیل را رعایت نمایند :
۱ - با کسانی که مستقیما در جنگ شرکت ندارند به انضمام افراد نیروهای مسلحی که اسلحه به زمین گذاشته باشند یا کسانی که به علت بیماری یا زخم یا اسارت یا هر علت دیگری قادر به جنگ نباشند باید در همه احوال بدون هیچ گونه تبعیضی که ناشی از نژاد رنگ عقیده جنس اصل و نسب یا ثروت یا هر علت مشابه آن باشد با اصول انسانیت رفتار شود اعمال ذیل در مورد اشخاص مذکور بالا در هر زمان و در هر مکان ممنوع است و خواهد بود :
الف - لطمه به حیات یا تمامیت بدنی منجمله قتل به تمام اشکال آن زخم زدن رفتار بیرحمانه شکنجه و آزاد
ب - اخذ گروگان
ج - لطمه به حیثیت اشخاص منجمله تحقیر و تخفیف
د - محکومیت و اعدام بدون حکم دادگاهی که صحیحا تشکیل شده و جامع تضمینات قضائی که ملل متمدن ضروری می دانند باشد.
۲ - زخمداران و بیماران باید جمع آوری و پرستاری شوند یک دستگاه نوعپروری بیطرف مانند کمیته بین المللی صلیب سرخ می تواند خدمات خود را به متخاصمین عرضه دارد گذشته از مراتب فوق متخاصمین سعی خواهند کرد تمام یا قسمتی از سایر مقررات این قرارداد را نیز از طریق موافقتنامه های مخصوص به موقع اجرا گذارند اجرای مقررات فوق اثری در وضع حقوقی متخاصمین نخواهد داشت
ماده - ۴ دولتهای بیطرف نیز مقررات این قرارداد را درباره زخمداران و بیماران و افراد کارکنان بهداری و مذهبی متعلق به نیروهای مسلح متخاصمین که در خاک کشورشان پذیرفته یا بازداشت میشوند و همچنین درباره مردگان به موقع اجرا خواهند گذاشت
ماده - ۵ در مورد اشخاص تحت حمایت این قرارداد که به دست دشمن بیفتند این قرارداد تا زمان اعاده قطعی آنان به میهنشان اجرا خواهدشد
ماده - ۶ علاوه بر موافقتنامههائی که صریحا در مواد - ۲۸ - ۲۳ - ۱۵ - ۱۰ ۳۷ - ۳۶ - ۳۱ پیشبینی شده دولت های معظمه متعاهد می توانند موافقتنامه های اختصاصی دیگری نیز در باب هر مسئله که حل آن را اختصاصا مقتضی بدانند منعقد سازند هیچ موافقتنامه اختصاصی نمی تواند به وضع زخمداران و بیماران و همچنین به وضع افراد و کارکنان بهداری و مذهبی به نحوی که به موجب این قرارداد معلوم گردیده لطمه وارد آورده و یا حقوقی را که این قرارداد به آنان اعطا کرده تقلیل دهد زخمداران و بیماران و همچنین افراد کارکنان بهداری و مذهبی در تمام مدتی که این قرارداد شامل آنان می باشد از مزایای آن موافقتنامهها برخوردار خواهند بود مگر آن که در موافقتنامه های مزبور یا در موافقتنامه های بعدی صریحا مقرراتی مغایر آن منظور شده باشد و یا اقدامات مساعدتری درباره آنان به توسط یکی از دول متخاصم اتخاذ گردیده باشد
ماده - ۷ زخمداران و بیماران و همچنین افراد کارکنان بهداری و مذهبی نمی توانند در هیچ حالی از تمام یا قسمتی از حقوقی که این قرارداد یا احیانا موافقتنامه های اختصاصی موضوع ماده قبل درباره آنان تامین نموده صرف نظر کنند
ماده - ۸ این قرارداد با معاضدت و تحت نظارت دول حامی که مامور حفظ منافع دول متخاصمند اجرا خواهد شد برای این منظور دول حامی می توانند علاوه بر مامورین سیاسی یا کنسولی خود نمایندگانی از میان اتباع خود یا اتباع دول بیطرف دیگر تعیین نمایند. تعیین نمایندگان مزبور باید مورد پذیرش دولتی قرار گیرد که نمایندگان نزد آن دولت انجام وظیفه خواهند کرد دولتهای متخاصم به وسیعترین وجهی در انجام وظایف مامورین یا نمایندگان دول حامی مساعدت خواهند کرد مامورین یا نمایندگان دول حامی نباید در هیچ حال از حدود ماموریت خود به نحوی که از این قرارداد مستفاد میشود تجاوز نمایند مخصوصا باید ضروریات عالیه امنیت دولتی را که نزد آن انجام وظیفه می نمایند رعایت نمایند تنها مقتضیات عالیه نظامی ممکن است به طور استثنا و موقت مجوز محدود ساختن فعالیت آنان شود
ماده - ۹ مقررات این قرارداد با فعالیتهای نوع پرورانه که کمیته بین المللی صلیب سرخ یا هر دستگاه بشردوست بیطرف دیگری برای حمایت زخمداران و بیماران و همچنین افراد کارکنان بهداری و مذهبی و برای کمک به آنان با موافقت دول متخاصم ذیربط به عمل آورد مانعت الجمع نخواهد بود
ماده - ۱۰ دول متعاهد می توانند در هر موقع بین خود ترتیبی دهند که وظائفی را که به موجب این قرارداد به عهده دول حامی محول است به دستگاهی که واجد تضمینات بیطرفی و کارآمدی باشد محول سازند هر گاه بعضی از زخمداران و بیماران یا افراد کارکنان بهداری و مذهبی به علتی از علل از فعالیت یک دولت حامی یا دستگاهی که به موجب بند اول تعیین شده باشد برخوردار نباشند یا برخوردار بوده ولی دیگر برخوردار نشوند دولت نگاهدارنده آنان باید از یک دولت بیطرف یا یکی از آن دستگاه ها درخواست نماید که وظایفی را که به موجب این قرارداد به عهده دول حامی که از طرف دول متخاصم تعیین میشوند محول است بر عهده گیرد
چنانچه بدین طریق نتوان حمایت لازم را تامین نمود دولت نگاهدارنده باید از یک دستگاه نوعپروری مانند کمیته بین المللی صلیب سرخ تقاضا نماید وظایف نوعپرورانه را که به موجب این قرارداد به عهده دول حامی محول است بر عهده گیرد و یا باید خدمات نوعپرورانهای را که از طرف چنین دستگاهی عرضه می شود با قید و شرط مقررات این ماده قبول کند هر دولت بیطرف یا هر دستگاهی که توسط دولت ذیربط برای منظور فوق دعوت شود یا خدمات خود را عرضه دارد باید در فعالیت خود متوجه مسئولیت خویش در قبال دولت متخاصم که افراد مورد حمایت این قرارداد وابسته آنند بوده و تضمینات کافی بدهد که قادر است وظایف مزبور را عهده دار گردد و بیطرفانه انجام دهد تخلف از مقررات فوق به اتکای هیچ موافقتنامه اختصاصی بین دولتها که یکی از آنها ولو به طور موقت در قبال دولت دیگری یا در قبال متحدین خود به علت وقایع نظامی منجمله در صورت اشغال تمام یا قسمت مهمی از خاک آن از حیث آزادی مذاکرات محدود شده باشند مجار نیست در هر جا که این قرارداد عنوان دولت حامی ذکر شود عنوان مزبور ناظر بر دستگاههایی که بر طبق منطوق این ماده جانشین دولت حامی است نیز می باشد
ماده - ۱۱ در هر موردی که دول حامی از لحاظ منافع اشخاص تحت الحمایه مفید بداند منجمله در صورت بروز اختلاف بین دول متخاصم درباره اجرا به تفسیر مفاد این قرارداد دول حامی برای حل اختلاف وساطت خواهند کرد برای این منظور هر یک از دول حامی می توانند بنا بر دعوت یکی از دول عضو قرارداد یا راساً به دول متخاصم پیشنهاد نمایند که جلسه از نمایندگان خود و بالاخص از دولتهایی که عهدهدار سرنوشت زخمداران و بیماران و افراد مامورین بهداری و مذهبی میباشند عندالاقتضا در خاک بی طرفی که به مناسبت
انتخاب شده باشد تشکیل دهند دول متخاصم مکلفند به پیشنهادهایی که در این زمینه می رسد ترتیب اثر دهند دول حامی می توانند در صورت اقتضا یکی از شخصیتهای یک کشور بیطرف یا یک مامور عالی مقام را که از طرف کمیته بین المللی صلیب سرخ ماموریت یافته باشد برای تصویب به دول متخاصم پیشنهاد نمایند که در جلسه مزبور شرکت کند.
ب) در باب زخمداران و بیماران
ماده - ۱۲ اعضا نیروهای مسلح و سایر اشخاص مذکور در ماده ذیل که مجروح یا بیمار شوند در همه احوال مورد احترام و حمایت قرار گیرند دولت متخاصمی که آنان را در اختیار خود دارد باید بدون هیچ گونه تمایز ناشیه از جنس و نژاد و ملیت و مذهب و عقاید سیاسی یا هیچ جهت دیگری آنها را مورد معالجه و پرستاری قرار دهد هر گونه دست درازی به حیات شخص آنان منجمله قتل محتضران قتل عام و شکنجه و اجرای آزمایشهای بیولوژی درباره آنان و رها کردن آنان بدون کمک پزشکی یا پرستاری با سبق تصمیم و یا قرار دادن آنان در معرض مخاطرات سرایت یا ابتلای امراض که آن مخاطرات عمدا برای همین منظور ایجاد شده باشد اکیدا ممنوع است تقدیم نوبت معالجه فقط به علل طبی مجاز است با زنان با کلیه احترامات خاصی که لازمه جنس آنان است رفتار خواهد شد دولت متخاصمی که مجبور شود زخمداران و بیماران را برای طرف متخاصم خود رها کند باید تا حدی که مقتضیات نظامی اجازه دهد قسمتی از مامورین بهداری و لوازم طبی خود را برای معالجه آنان باقی گذارد
ماده - ۱۳ این قرارداد درباره زخمداران و بیماران وابسته به طبقات ذیل مجری خواهد شد :
۱- اعضای نیروهای مسلح دولت داخل در جنگ و همچنین اعضا قوای چریک و دسته های داوطلب که جزو نیروهای مسلح مزبور باشند.
۲- اعضا سایر چریکها و اعضا سایر دسته های داوطلب به انضمام نهضت های مقاومت متشکل متعلق به یک متخاصم که در خارج یا در داخل خاک خود مشغول عمل باشند ولو آن که خاک مزبور اشغال شده باشد مشروط بر این که چریکها یا دسته های داوطلب به انضمام نهضتهای مقاومت متشکل مزبور جامع شرایط زیر باشند:
الف - در راس آنها شخصی باشد که مسئول اتباع خود باشد
ب - دارای علامت مشخصه ثابتی باشند که از دور قابل تشخیص باشد
ج - علنا حمل اسلحه نمایند
د - در عملیات خود بر طبق قوائد و رسوم جنگ رفتار کنند
۳- اعضا نیروهای مسلح منظم که خود را وابسته به دولت یا مقامی اعلام کرده باشند که توسط دولت دستگیرکننده شناخته نشده باشد.
۴- اشخاصی که همراه نیروهای مسلح می باشند بی آنکه مستقیما جزو آن نیروها باشند از قبیل اعضای کشوری طیارات نظامی - خبرنگاران جنگی - تهیه کنندگان اجناس - اعضای واحدهای کار یا خدمت که عهده دار رفاه نظامیانند مشروط بر این که از نیروهای مسلحی که همراهی می کنند کسب اجازه کرده باشند.
۵- اعضا به انضمام فرماندهان و ناخدایان و شاگردان بحریه بازرگانی و اعضا هواپیمایی کشوری که به موجب مقررات حقوق بین المللی از معامله مساعدتری بهره مند نیستند.
۶- نفوس اراضی اشغال نشده که هنگام نزدیک شدن دشمن بی آنکه فرصت متشکل شدن به صورت نیروهای مسلح منظم داشته باشند ارتجالاً اسلحه به دست می گیرند مشروط بر این که علنا حمل اسلحه نمایند و قوانین و رسوم جنگ را رعایت کنند.
ماده - ۱۴ با توجه به مقررات ماده فوق زخمداران و بیماران یک دولت متخاصم که به دست طرف میافتند اسیر جنگی بوده و قواعد حقوق بشر مربوط به اسیران جنگی درباره آنان معتبر خواهد بود.
ماده - ۱۵ دولتهای متخاصم در هر حال و مخصوصا پس از شروع جنگ باید بدون فوت وقت تدابیر ممکنه را برای جستجو و جمع آوری زخمداران و بیماران اتخاذ نمایند و آنان را از چپاول و بدرفتاری حفظ کنند و پرستارهای لازم را برای آنان تامین نمایند و همچنین مردهها را پیدا کنند و نگذارند کسی اشیا آنها را ببرد
هر موقع که اوضاع اجازه دهد طرفین بین خود قرار متارکه یا وقفه آتش یا قرار محلی دیگری خواهند داد که زخمداران میدان جنگ جمع آوری و مبادله و حمل شوند همچنین بین دول متخاصم ممکن است قرار محلی داده شود که زخمداران و بیماران یک ناحیه محاصره شده تخلیه یا مبادله شوند و مامورین بهداری یا مذهبی و لوازم بهداری به مقصد آن ناحیه عبور داده شوند.

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت
 [ 01:59:00 ق.ظ ]