البته “ناگهانی” کا مفهوم کچھ مشخصات اور خصوصیات رکھتا هے:
الف) ناگهانی موجود عادت کے لحاظ سے قابل پیشن گوئی اوراس کی سابقه حالت کو ملاحظه کرتے هوئے اس کا وقوع متوقع نهیں هے؛ یعنی کائنات کی ابتدائی حرکات جس تدریجی نظام کے ذریعے آگے بڑھتی هیں اس تک نهیں پهنچتی هیں۔اس بنا پر کها جاتا هے که “جهش میں حرکت تبدیل هوتی هے”۔
ب) اس کے علاوه خود ناگهانی حرکت تیز اور مخلوط حرکتوں کے ایک سلسلے کا معلول هے جسے انسانی حس تشخیص نهیں دے سکتی۔
سائنسدانوں نے “جهش” کی ان بعض مشخصات کے ذریعے معرفی کی هے اور کبھی کها گیا هے که جهش کے بارے میں توارثی اور وراثتی بقاء بھی ضروری اور لازمی هے۔حال هی میں جدلیاتی ماده پرست سائنسدان حضرات جن کا مقصد فلسفے کو سماجی مقاصد پر تطبیق دینا هے ، ایک نئی گنگناهٹ کا آغاز کیا هے اور جهش میں انقلاب کو شرط قرار دیتے هوئے پانی کا بخار میں تبدیل هونے سے پهلے پانی کے ابلنے کی مثال دی هے۔

جهش کے بارے میں فلسفه کا نظریه

جهش کے لئے ذکر شده خواص جیساکه واضح هے کلیت نهیں رکھتے اور ان میں سے صرف دو خصوصیات کو کّلیت کی صفت کے ساتھ متصف کیا جا سکتا هے جو که حادثے کا غیر متوقع هونا اورایک حرکت کا دفعتا دوسری حرکت میں تبدیل هوناهے۔
البته کسی چیز کی پیدائش کا متوقع هونا اور نه هونا ایک ذهنی صفت هے که ذهن پریشان هونے اور نه هونے یا پریشانی کی حالت میں هونے اور نه هونے کے ذریعے کسی چیز کو دیتا هےاور ایسی چیز کو واقعیات کے لئے واقعی صفت قرار نهیں دیا جا سکتا ۔
صرف ایک حرکت سے دوسری حرکت کی طرف جلدی منتقل هونا باقی ره جاتا هے۔ دوسرے لفظوں میں دو مخالف حرکتوں کے درمیان ایک تیزفتار حرکت کی پیدائش جو انهیں ایک دوسرے سے وابسته اور مرتبط کرے۔ البته یه معنی حرکت کے اوپر کسی نئی پیدا هونے والی واقعیت کا اضافه نهیں هے که فلسفه –جو که اشیاء کےوجود سے بطور کلی بحث کرتا هے- اس کو مورد بحث قرار دے۔ اور یهاں سے واضح هوجآئے گا که جهش کی بحث فلسفیانه ارزش نهیں رکھتی هے۔[۱۱۹]

توضیح نمبر ۳

قدیم فلاسفرز نے حرکت کو اس کے مبداء اور فاعل کو مدنظر رکھتے هوئے نفسانی حرکت ، طبیعی حرکت اور قسری حرکت(طبیعت کے خلاف) میں تقسیم کیا هے۔ اور چونکه مذکوره تقسیم حقیقت میں حرکت کے فاعل کی تقسیم هے نه خود حرکت کی لهذا اس مقاله میں اس مطلب کی تحقیق کرنے سے پرہیزکی هے۔

توضیح نمبر ۴

جیساکه گزشته مباحث سے واضح هوا که حرکت ایک “(دفعی)” واقعیت هے اگرچه واقع کے حساب سے سیال اور قابل تقسیم هے۔ ایک اور واقعی نگاه سے تمام حرکتوں کے پیکر اور اس کے اجزاء تقسیم کے فرض کے بعد سیلان اور تقسیم کے قبول کرنے کو کھو تے هوئے امکان سے خالی ایک واقعیت میں بدل جاتے هیں اور ایک خالص اور ثابت امر بن جاتے هیں۔ اور بدیهی هے که اس صورت میں کیونکه امکان منتفی هوجاتا هے مادی علت کا محتاج نهیں رهتے اور موجود هونے کی صورت میں صرف علت فاعلی اور علت غائی کا محتاج هو تے هیں۔
یهاں سے مادی علوم کے کچھ سائنسدان کهتے هیں که هر حادثه کسی علت کا محتاج هے ۔ یهی وجه هے که اشیاء کو صرف تین بُعدوں سے سمجھا جا سکتا هے اور چوتھے بُعد سے اشیاء کو سمجھنے سے عاجز هیں چنانچه اگر اشیاء کو چار بُعدوں کے ذریعے درک کرتے تو علت کی طرف محتاج هونے کا انکار کرتے۔
چنانچه واضح هے ان سائنسدانوں کی مراد یه هے چونکه هم زمان کے اجزاء (چوتھا بُعد) کو سب کے نظریے کے مطابق جمع نهیں کرسکتے اور زمان کے هر جز کو جوکه حادثے کے وجود کا مقارن رکن هے، کسی دوسرے جز کے بعد درک کرتے هیں۔ اس بنا پر تمام حوادث میں جریان اوربھاؤکو درک کرتے هوئے هر حادثے کو بعد کے حادثے کی علت سمجھتے هیں اور اگر چاروں ابعاد کو درک کرتے تو هر حادثے کو اپنی جگه پر بے جریان اور ثابت شکل میں علت کا محتاج دیکھتے ؛ یعنی پهلے حادثے کے وقوع کو فرض نهیں کرتے۔ پس علت اور معلول کا قانون جو حقیقتا هماری نظر میں اشیاء کو تین بُعد کے ساتھ درک کرتا هے، اهمیت کا حامل هے ورنه اشیاء واقع کے لحاظ سے باریک دانوں کا مجموعه هیں جنهیں ایک دوسرے کے پهلو میں رکھا گیا هے اور ایک دوسرے سے کسی قسم کا اتصال اور ارتباط نهیں رکھتے جو انهیں علت کی طرف محتاج هونے پر مجبور کرے۔
اس گفتگو کے اطراف میں دقت کرنے سے واضح هوجاتا هے که اس کی بنیاد دو نظریوں پر استوار هے:
پهلا: ماده اور توانائی کا اجزاء سے مرکب هونا ، هم نے گزشته ابحاث میں بیان کیا که فلسفی ابحاث مذکوره ترکیب کےساتھ کوئی ربط نهیں رکھتی هیں۔
دوم: علت ، علت مادی پرمنحصر هے : هم نے علت اور معلول کے مباحث میں ثابت کیا که علت مادی کے علاوه علت صوری اور دو دیگر علیتں علت غائی اور علت فاعلی بھی هیں جن سے کوئی بھی حادثه مستغنی اور بے نیاز نهیں هے۔

اس مقاله میں ثابت هونے والے مسائل مندرجه ذیل هیں :

۱ – هم “امکان” نامی ایک نسبت رکھتے هیں۔
۲ – امکان ایک ایسی فعلیت کا محتاج هے جو اسے حمل کرے۔
۳ – هر فعلیت اپنے سے ایک اور فعلیت کو دور کرتی هے۔
۴ – هر خارجی اکائی میں صرف ایک فعلیت کے علاوه باقی تمام فعلیتیں ماده کا جز هے۔
۵ –کسی شئ کے امکان کا حامل اس کا ماده هے نه صورت۔
۶ – فعلیت کی پیدائش کے ساتھ اس کا امکان ختم هو جاتا هے۔
۷ – جسمانی ماده غیر متناهی صورتوں کا امکان رکھتا هے۔
۸ – ماده امکان کے واسطے دوری اور نزدیکی سے متصف هوتا هے۔
۹ – موجود اور معدوم کے درمیان رابطه اور نسبت محال هے۔
۱۰ – امکان اور فعلیت کے درمیان کسی چیز کا فاصله نهیں هے۔
۱۱ – حرکت مکانی یه هے که جسم کی مکانی نسبت تبدل اور سیلان پیدا کرے۔
۱۲ – حرکت میں امکان اور فعلیت (تدریجی وجود اور عدم) مخلوط هے۔
۱۳ – جسم کی کسی ایک صفت میں هر تدریجی تغییر ، حرکت هے۔
۱۴ – کائنات حرکت کے مساوی هے۔
۱۵ – حرکت کا لازمه تکامل(ارتقاء) هے۔
۱۶ – حرکت بغیر غایت کے نهیں هو سکتی هے۔
۱۷ – حرکت مطلوب بالذات نهیں هو سکتی ہے۔
۱۸ – متحرک اپنی حرکت کے ذریعے تکامل حاصل کرتا هے۔
۱۹ – کائنات کا عمومی قانون تحول اور تکامل هے۔
۲۰ –طبیعی انواع کا جوهر متحرک هے۔
۲۱ – جوهر کے اعراض بھی اس کی تبعیت میں متحرک هیں۔
۲۲ – هر جوهری حادثه حرکت کا ایسا حصه هے جو پهلے اور بعد کے حصے سے الگ نهیں هے۔
۲۳ – محسوس کی دوسری حرکتوں کو “حرکت میں حرکت” جاننا لازمی هے۔
۲۴ – حرکت جوهری کی غایت مادے سے خالی هونا هے۔
۲۵ – کائنات میں سکون کا وجود ایک نسبی وجود هے۔
۲۶ – حرکت کے دو معنی هیں ، قطعیه اور توسطیه اورحرکت ان دونوں معنی میں موجود هے۔
۲۷ – زمان حرکت کی مقدار هے۔
۲۸ – کائنات میں موجود حرکات کی تعداد میں زمان فرض کر سکتے هیں۔
۲۹ – زمان کائنات کے وجود کی پیداوارهے اور کائنا ت سے پهلے اور اس کے بعد زمان کا موجود هونا محال هے۔
۳۰ – زمان کے اجزاء کے درمیان ایک قسم کا تقدم اور تأخر موجود هے۔
۳۱ – حرکت کی تیز رفتاری اور سست رفتاری کو ناپنے کا ایک وسیله زمان هے۔
۳۲ – زمان اپنی سنخ سے اول اور آخر نهیں رکھتا هے۔

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت


فرم در حال بارگذاری ...